Thursday 13 June 2013

تصوف کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی  رسولہ الکریم
افضل الذکر۔ لا اله الا الله محمد رسول الله
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ
تصوف کیا ہے؟

جواب : تصوف کو لفظوں میں سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے ۔
"بقول حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز"

’’منہ سے کہیں شکر تو زباں کو نہیں مزہ
جس نے چکھا زبان پر لذت وہی لیا‘‘

ہم زبان سے لاکھ مرتبہ شکر شکر کہیں مگر ہمارے الفاظ شکر کے ذائقہ کی ترجمانی نہیں کرسکتے ۔ اگر کسی نے رنگوں کو نہ دیکھا ہو اور وہ تم سے پوچھے کہ رنگ کیا ہے تو تم کیسے بتائوگے اور کیسے سمجھائوگے۔ بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کو رنگ دکھا دو۔ وہ دیکھتے ہی سمجھ جائے گا کہ فلاں رنگ ایسا ہوتا ہے۔ الفاظ کسی بھی خوشبو کو سونگھا نہیں سکتے نہ بھیرویں راگنی سنا سکتے ہیں ۔ پس جب مادّی (پانچ)حواس خمسہ کے احساسات الفاظ میں بیان نہیں کئے جاسکتے تو قلب و روح کے لطیف احساسات جو سرمایہ تصوف ہیں کس طرح الفاظ کے دائرے میں لائے جاسکتے ہیں ۔ آدمی لاکھ تصوف کی کتابیں پڑھے اور زبان سے تصوف تصوف کہے جائے لیکن وہ تصوف ہر گز نہیں سمجھ سکتا۔
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’تصوف اسم نہیں رسم ہے ۔ اس میں ہمہ گری ہے ، ہر شئے کے عرفان سے خالق تک پہنچنے کا راستہ ہے۔                                                       
تصوف ایک حال ہے ، کیفیت ہے، وجدان ہے، طلب اس کی کنجی ہے، ذوق و شوق اس کی بقا ہے ، عشق و محبت اس کا رکنِ اعظم اور ذاتِ مطلق تک پہنچنے کا زینہ ہے، معرفت اس کی خصوصیت ہے، فنا فی الذات اس کا مقصد ہے اور بقا در بقا اس کا نتیجہ ہے۔
بزرگوں کے اقوال علمِ تصوف کو سمجھنے کے لئے کچھ حد تک مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ مگر یہ بات آپ کے پیشِ نظر رہے کہ تصوف کی تعریف اور تفسیر کے بارے میں حضراتِ صوفیہ کے احکامات مختلف ہیں ۔ ان سب کا حاصل یہ ہے کہ تصوف کا مطلب ہے اخلاق کی اصلاح، باطن کی صفائی، صفاتِ کاملہ سے موصوف ہونا، اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے موصوف ہونا، راہ حق پر قائم رہنا، حقوق کا ادا کرنا، دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئےخاص کرنا، بے فائدہ کاموں سے پرہیز کرنا، تقویٰ کی پابندی کرنا۔
حضرت سید الطاہرین امام محمد باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف اچھے اخلاق کا دوسرا نام ہے۔ جو اچھے اخلاق میں تجھ سے زیادہ ہے وہ تصوف میں زیادہ ہے۔"

حضرت معروف کرخی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
"تصوف ہر چیز کی حقیقت جاننے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مایوس ہونے کا نام ہے ۔"
حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف یہ ہے کہ تو اپنے نفس کو اللہ کے ساتھ اس طرح چھوڑ دے کہ وہ جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔"
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔"
حضرت ابو الحسن نوری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف علم و فن کا نام نہیں ، مجموعہ ، اخلاق کا نام ہے ۔"
حضرت خواجہ بہا ئوالدین نقشبندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف یہ ہے کہ اجمالی معاملہ تفصیلی ہوجائے اور استدلالی معاملہ کشفی ہوجائے ۔"
حضرت مجددِ الف ثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف شریعت پر اخلاص سے عمل کرنے کا نام ہے ۔"
مولوی اشرف علی تھانوی نے فرمایا۔
"تصوف اپنے کو مٹادےنے کا نام ہے ۔"
حضرت سید افتخار علی وطن قبلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
" تصوف شریعت کا مغز ہےجو لوگ براہین و محبت سے تقریر کرتے ہیں اور خلاف شریعت مسائل توحید جانتے ہیں اور سمجھاتے ہیں وہ ملحد ہیں۔ تصوف وہ ہے جو واقعہ میں سالک معائنہ کرے۔ تجلیاتِ الٰہی کا اور واقعہ اس کو کہتے ہیں جو خواب و بیداری میں سالک پر ایک حال طاری ہوتا ہے کہ نہ وہ خواب ہے نہ بیداری ویسےشخص کو بیدار سمجھےکہ سویا ہوا شخص تصور کرے کہ بیدار ہے اور واقعہ کی نوعیت اور تعریف یہ ہے جیسے خام کہ وہ عین روز ہے نہ عین شب ، پس ایسے وقت و حالت میں سالک کو جو نظر آئے وہ تصوف ہے ۔"

Saturday 20 October 2012

اللہ ربُؑ العزَؑت سے محبؑت کیسے پیدا کی جاۓ پارٹ ۱

 اللہ ربُؑ العزَؑت سے محبّت کیسے پیدا کی جاۓ میرے عزیزوں! کسی سے بھی محبّت پیدا کرنے کے لۓ اس سے تعلّق پیدا کرنے کے لۓ ، اسے دیک

Wednesday 17 October 2012

ابن آدم و بنت حوا

ابن آدم و بنت حوا دراصل بنت حوا کو اختیار نہیں مرتبے کی ضرورت تھی، جو اُسے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی شکل میں عطا ہوا ہے۔ اگر اختیا...

Friday 12 October 2012

اللہ ربُؑ العزَؑت سے محبؑت کیسے پیدا کی جاۓ پارٹ ۲


اللہ تک پہنچنے کا راستہ ایک مِثال سے
جیسا کہ ایک باپ کہیں جاتا ہے ، اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لیکر چلا جاتا ہے، استاذ کہیں جاتا ہے شاگرد کو اپنے ساتھ لیکر چلا جاتا ہے ، جہاں استاذ جاتا ہے شاگرد بھی جاتا ہے ، جہاں باپ جاتا ہے بیٹا بھی جاتا ہے۔
بس اسی طرح تمہارے دل جب ان دلوں سے جڑ جائیں گے جو اللہ ربُّ العزّت تک پہنچے ہۓ ہیں تو تمہارے دل بھی وہاں تک پہنچنے والے بن جائیں گے ، شروع شروع میں کسی کے ذریعہ سے جائیں گے، شروع شروع میں کسی کی مدد سے جائیں گے پھر خود بخود  جانے والے بن جائیں گے۔
جیسے شروع شروع میں سعودی جاتا ہے ، ممبئی جاتا ہے، کسی کی معرفت سے جاتا ہے ، کسی کہ ذریعہ سے جاتا ہے ، کسی کے ساتھ جاتا  ہے کسی جان پہچان کی وجہ سے جاتا ہے ، اور ایسا نہی ہے تو پھر ٹکّریں مارتا پھرتا ہے پتہ نہی کہاں کا کہاں پہنچ جاتا ہے۔
اور جب تعلّق اور ذریعہ سے آتا جاتا ہے اور راستہ دیکھ لیتا ہے تو پھر میرے عزیزو! اپنے اپ جانے والا بنجاتا ہے۔
باپ کے ساتھ بیٹا کہیں گیا ، استاذ کے ساتھ شاگرد چند بار کہیں گیا ، جا جا کر اسکو راستہ یاد ہو گیا ، ان سب چیزوں کو اسنے پہچان لیا جن جن کو باپ یا اُستاذ کرتا تھا ، پھِر باپ یا استاذ کے بعد وہاں پہ جانے کا خد حقدار بن گیا ، کیوں کہ صلاحیت باپ یا استاذ کے اندر تھی وہ صلاحیت اس کےاندر بھی آگئ اور وہ وہاں پر پہنچنے کے طور طریقوں سے واقف ہو گیا۔
اپنے دلوں کو اہل دل سے جوڑ کر رکھو
اس لۓ میرے عزیزو! میں کبھی کبھی یہ بات بتلا دیتا ہوں کہ اپنے دلوں کو اہل دل سے جوڑ کر رکھو ، اگر تم اپنے دلوں کو کسی اہل ِعشق ، اہلِ پرواز ، اہلِ حال سے جوڑ لوگے تو تمہارے دل بھی پرواز کرنے والے بن جائیں گے۔
اور جو دل اہلِ پرواز ہے ، جو دل اہلے حال ہے وہی میرے عزیزو! وحدہٗ لا شریک کے دَربار تک پہنچتا ہے عام دل وہاں تک نہی پہنچتے ، عام دلوں کی وہاں تک رَسائ نہیں ہے خاص دلوں کی ہی اس پَاک دربار تک رَسائ ہو سکتی ہے۔
اہلِ دل اہلِ حَال کےلۓ عرشِ عاظم بھی دُور نہیں ہوتا
جو دِل اہلِ دل بن جاتاہے جو دل اہلِ حال بن جاتا ہے ، جس کا دل اہلِ عشق بن جاتا ہے ، اقر قامل تریقے سے اسے حُبّے الٰہی میں دردِ محبّت نصیب ہو جاتا ہے تو کبھی کبھی کسی کسی موقع پر نہ مکہّ دُور ہوتا ہے نہ مدینہ دور ہوتا ہے ۔ ارے جب عرشَ اعظم ہی دُورنہیں تو مکّہ مدینہ کیا دور ہوگا؟
مگر کب؟جب کہ اس کوخاص تعلق اپنے محبوبِ حقیقی سے ہوتا ہے،اور دل اس محبوب سے جُڑا ہوا ہوتا ہے۔
مُنیرعَالم نقشبندی مجددی کرتپور۔

Friday 5 October 2012

میرے دل اور دماغ

میرے دل اور دماغ کی آپس میں سرد جنگ جاری ہے آج کل میں بہت ہی عجیب سی کیفیت سے گزر رہا ہوں میرے دل و دماغ ہر وقت آپس میں الجھے رہتے ہی...